

این آرانڈئنس پر شائع مضمون NRIndians
ڈاکٹر
حسن احمد نظامی - اردو کا ایک بے لوث استاد
معصوم مرادآبادی
masoom.moradabadi@gmail.com
اگر آپ کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں کوئی ایسا استادمیسرآ جائے جو خود اپنی
جیب سے آپ کی فیسادا کرکے آپ کا فارم بھرے اور پھر امتحان میں پاس کرانے کے لیے
رات ودن آپ کو پڑھائے۔ جب آپ اچھےنمبروں سے پاس ہوجائیں تو آپ کو اچھی ملازمت
دلانے کی تگ ودو میں مصروف ہوجائے۔ ایسے استاد کوآپکیا کہیں گے؟ شاید ایسے شخص
کو کوئی نام دینے کے لیے آپ کو لغت میں آسانی سے کوئی ایک لفظ نہ ملے۔ظاہر ہے
ایسے بے مثل استاد کو آپ کسی ایک لفظ میں خراج تحسین پیش کربھی نہیں سکتے۔جس
استاد میںماں باپ جیسی شفقت ومحبت اور وارفتگی ہو،اسے لفظوں کے حصار میں قید
کرنا یوں بھی ممکن نہیں۔
جی ہاں، آج میں آپ کا تعارف ایسے ہی ایک بے مثل استاد سے کرارہا ہوں جس نے اپنی
زندگی میں ہزاروںنوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے ہی آراستہ نہیں کیا بلکہ انھیں
اچھی ملازمتیں بھی دلوائیں تاکہ وہ بہتر زندگیکا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں۔ یہ
ہیں رامپور رضا ڈگری کالج کے سابق استاد ڈاکٹر حسن احمد نظامی،جنھوں نے روہیل
کھنڈ کے کئی شہروں میں اردو کے طالب علموں کے مستقبل میں چار چاند لگائے اور
پیرانہسالی کے باوجودوہ آج بھی اپنے مشن پر گامزن ہیں۔ ان کا دروازہ ہر اس شخص
کے لیے کھلا ہوا ہے جو اردوکا کوئی بھی امتحان پاس کرنا چاہتا ہے۔ میں جب بھی
انھیں دیکھتا ہوں تو مجھے گزرے زمانے کے وہاساتذہ علم وفن یاد آتے ہیں جن کے
نزدیک علم کی ترسیل وتبلیغ ہی زندگی کا واحد مقصد تھا اور جو صبحسے شام تک اسی
شغل میں مصروف رہ کر طمانیت محسوس کرتے تھے۔ ایک ایسے دور میں جب تعلیم
اورتجارت میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ہے،مجھے نظامی صاحب کی شخصیت مینارہ
نور نظر آتی ہے۔انھوںنے اپنی پوری زندگی تعلیم وتدریس کے کام میں گزاری ہے اور
کبھی کسی سے اس کا معاوضہ طلب نہیں کیابلکہ اپنی تنخوا ہ سے سیکڑوں نادار طالب
علموں کی خاموش مدد بھی کی۔
یادش بخیر!یہ 1987 کا واقعہ ہے۔ایودھیا تحریک کی وجہ سے ملک کے حالات دگرگوں
تھے۔ میں ایک نامہنگار کے طورپر ان حالات کی رپورٹنگ کے لئے دوڑدھوپ کررہا
تھا۔ایک دن اچانک ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔اس میں لکھا تھا کہ”میں نے تمہار ایم
اے کافارم بھردیا ہے۔ فیس بھی جمع کرادی ہے۔فلاں فلاں تاریخ کورامپور میں تمہیں
امتحان دینا ہے۔“یہ خط میرے کرم فرما ڈاکٹر حسن احمد نظامی کی ہی طرف سے تھا۔
اسخط کو دیکھ کر جہاں خوشی کا احساس ہوا‘ وہیں یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ میں
اپنی ہنگامہ خیزمصروفیات سے کیسے نجات پاؤں گا۔تقاضا اتنا سخت تھا کہ میں دفتر
سے دوہفتہ کی چھٹی لے کر امتحانکی تیاری کے لیے رامپور پہنچ گیا۔نظامی صاحب کے
دولت کدے پر حاضر ہوا تو وہاں طالب علموں کا ہجوم تھاجس میں ہرعمر کے
مردوخواتین تھے۔اردو میں بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے والوں نے نظامی صاحب
کوچاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ساتھ ہی چائے کی ایک کیتلی بھی نظر آئی جس میں سے
ایک طالب علم فرداًفرداً سب کو وقفہ وقفہ سے چائے پلارہا تھا۔کھانے کا وقت ہوا
تو نظامی صاحب کی اہلیہ نے سب کے لیےدسترخوان سجادیا۔ یہ سبھی طالب علم وہ تھے
جن سے کوئی ٹیوشن فیس وصول نہیں کی گئی تھی طلباءکے لیے خورد ونوش کا بندوبست
بھی تھا اور ساتھ ہی ایک جنون بھی کہ ہر طالب علم اچھے نمبروں سے پاسہو۔ میں
بھی اس ہجوم بے کراں کا حصہ بن گیا۔طالب علم اپنی پیاس بجھارہے تھے۔ سبق درسبق
سب کوپڑھایا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ہی طلباء کے سوالوں کا سلسلہ۔ مجال ہے کہ
نظامی صاحب کی پیشانیپر بل پڑھ جائے یا وہ تھک جانے کا بہانہ کرکے بستر پر دراز
ہوجائیں۔ صبح سے رات گئے تک یہ سلسلہ بلاروک ٹوک جاری وساری۔شعر وشاعری،
تنقیدوتشریح اور ادب کا دریا ہے کہ بہتا چلا جارہا ہے۔
نظامی صاحب نے اپنی زندگی میں نہ تو موٹی موٹی تحقیقی اور تنقیدی کتابیں لکھیں
اور نہ خود کوسیمیناروں کی غذا بنایا بلکہ ایسے ہزاروں شاگرد تیار کردئیے
جوتصنیف وتالیف کے کاموں میں لگے ہوئے ہیںاور ان کا فیض جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ
حقیر پرتقصیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میں نے اپنیزندگی میں جن اساتذہ کو
دیکھا اور جانا ان میں نظامی صاحب اس اعتبار سے سب سے منفرد ہیں کہ ان کےہاں
اپنے طالب علموں کو سرخرو ہوتے ہوئے دیکھنا ہی سب سے بڑی معراج ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ ان سے فیضحاصل کرنے والے جملہ طلباء اور طالبات ان سے عقیدت ومحبت کا تعلق
رکھتے ہیں۔وہ طلباء اور طالبات کو انکے موضوع اورمضمون کے انتخاب کے بعد اس سے
وابستہ زیادہ سے زیادہ معلومات بہم پہنچانے کی فکرمیں ہمہ تن مصروف نظرآتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ کس یونیورسٹی اور ادارے میں کون کون سے کورس چلرہے ہیں، کون
سے نئے کورس آئے ہیں، ان میں داخلے کی کیا شرطیں ہیں اور کب داخلے ہونے ہیں، یہ
سبباتیں ان کے نوک زبان پررہتی ہیں۔صبح پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک طلباء اور
طالبات کا ایک میلہ ان کےمکان پر لگا رہتا ہے۔
ڈاکٹر حسن احمدنظامی کا وطنی تعلق مغربی اترپردیش کے مردم خیز قصبہ بچھراؤں سے
ہے۔وہی بچھرایوںجوڈاکٹر حامد حسن قادری، خواجہ احمد فاروقی اور عزیز وارثی
جیسوں کا وطن ہے۔ان کی پیدائش 26 دسمبر 1949 کو ہوئی اسی بچھراؤں میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم بچھرایوں کے جونیر ہائی اسکول میں ہوئی۔بعدازاں مرادآباد کے مسلم
انٹر کالج سے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ پاس کیا۔پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹیسے
فرسٹ ڈویژن میں پہلے بی اے اور پھر ایم اے پاس کیا۔1977 میں یہیں سے ’شمالی ہند
کی اردوشاعریمیں ایہام گوئی‘ کے موضوع پر پروفیسر عتیق احمد صدیقی کی نگرانی
میں پی ایچ ڈی کی۔1979 میںگورنمنٹ رضا پوسٹ گریجویٹ کالج رامپور سے بطور استاد
وابستہ ہوئے اور یہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔تقریباً تیس سال گریجویٹ اور ستائیس
سال پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں درس وتدریس سے وابستہ رہے۔جنطلباء نے آپ کی نگرانی
میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ان میں ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹراطہر
مسعود خاں، ڈاکٹر رباب انجم وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے فیض یافتہ دیگر
لوگوں میں ڈاکٹر غیاثا لرحمن سید، ڈاکٹر ظہیر رحمتی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں وغیرہ
کے نام قابل ذکر ہیں۔آپ فخرالدین علی احمدمیموریل کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے
ہیں۔
علی گڑھ میں نظامی صاحب کو جن اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا، ان میں پروفیسر
آل احمدسرور،پروفیسر معین احسن جذبی،پروفیسر خورشید الاسلام، پروفیسرخلیل
الرحمن اعظمی،پروفیسر نادر علیخاں اور پروفیسر اخلاق محمدخاں شہریارجیسے لائق
وفائق اساتذہ شامل ہیں۔علی گڑھ میں پروفیسر شمیمحنفی کی سرپرستی بھی انھیں حاصل
رہی۔ پروفیسر حنفی نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
”حسن احمد نظامی صاحب نے کس طرح طالب علمی کے دور سے نکل کر معلمی کے دائرے میں
قدم رکھا، اسکی پوری تفصیل میرے مشاہدے کا حصہ رہی ہے۔جن دنوں وہ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی سے ایم اے کررہےتھے، میں شعبہ اردو سے وابستہ تھا۔وہ ایک نہایت
شائستہ مزاج، اپنے کام سے کام رکھنے والے طالب علمتھے، اساتذہ اور طلباء میں
یکساں طور پر مقبول۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اپنا تحقیقی منصوبہ مکمل کرنےاور
ملازمت مکمل کرنے کے بعد، ان کے علمی مشاغل میں فرق نہیں آیا اور وہ یکسوئی کے
ساتھ لکھنے پڑھنےمیں مصروف ہیں۔ایک منصب آگاہ معلم کی زندگی ہمیشہ کچھ اخلاقی
اصولوں کی پابند رہتی ہے۔حسناحمد صاحب نے اس سطح پر بھی ایسی روش قائم رکھی اور
دنیا کے ان معاملات سے دور رہے جو علمی اوراخلاقی زندگی کے سفر میں رکاوٹیں
پیدا کرتے ہیں۔“(’ڈاکٹر حسن احمد نظامی:حیات وخدمات‘مرتب ڈاکٹراطہر مسعود خاں،
صفحہ 11)
کئی برس کی بات ہے کہ رامپور کی سرکردہ علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر اطہر مسعودخاں
نے ڈاکٹرحسناحمد نظامی کی حیات وخدمات پرمشتمل چارسو صفحات کی ایک کتاب شائع کی
تھی۔یہ کتاب کیا ہے جذباتواحساسات کا ایک سیل رواں ہے جس میں ان کے شاگردوں،
چاہنے والوں اور معاصرین نے دل نکال کر رکھدیا ہے۔ شاید اس سے بہتر خراج تحسین
کوئی اور نہیں ہوسکتا۔حالانکہ ڈاکٹر حسن احمد نظامی کو اپنیزندگی میں اگر کسی
شے سے بیر رہا ہے تو وہ ہے شہرت اور ناموری، وہ بھی ایک ایسے دور میں جب
ہماریادبی اور علمی دنیا کے لوگوں کا واحد مشغلہ ہی شہرت حاصل کرنے کے لیے
جوڑتوڑکرنا ہے۔نظامی صاحبکے شاگردخاص اور مشہور ادیب ڈاکٹر شمس بدایونی لکھتے
ہیں:
”شہرت کمال وہنر کا لازمی نتیجہ نہیں اور ڈاکٹر صاحب تو شہرت کو مردہ لوگوں کی
غذا سمجھتے ہیں، جوقبروں میں پڑے اسے چاٹ رہے ہیں۔لہٰذا انھیں شہرت کی حاجت
نہیں۔اسی لیے وہ چھپنے چھپانے، ملنے ملانےاور نئے نئے روابط بنانے پر یقین نہیں
رکھتے بلکہ خاموشی کے ساتھ وہ اپنے فرائض درس وتدریس انجام دیتےرہتے ہیں اور
خدمت خلق کے تصور سے سرشار رہتے ہیں۔ان کو اپنی اہمیت کا مطلق احساس بھی
نہیں۔بقولشاعر
شوخیاں تیری نہ ظاہر ہوئیں خود تجھ پہ کبھی
تجھ کو دھوکے میں تری شرم وحیا نے رکھا
(ایضاًصفحہ 193)
ڈاکٹر حسن احمد نظامی کا تدریسی کارواں آج بھی جاری وساری ہے۔ طلباء و طالبات
ان کے دولت خانے پراسی طرح کسب فیض کررہے ہیں۔ نظامی صاحب اپنی تمام مصروفیات
کو بالائے طاق رکھ کر انھیں اعلیٰتعلیم سے سرفراز کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے اوروہ یونہیاردوزبان وتہذیب کی آبیاری
کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔
۱۵ مارچ ۲۰۲۳
سلام و جزاک اللہ جناب معصوم مراد آبادی صاحب !
ڈاکٹر حسن احمد نظامی صاحب پر آپ کا مضمون لائق ستائش ہے۔ اچھا کیا آپ نے اگلی
نسلوں کو نظامیصاحب کی بے لوث خدمات سے آگاہ کیا۔ علی گڑھ میں زمانہ طالب علمی
کے دوران نظامی صاحب سے رفاقتکا شرف مجھے بھی حاصل رہا ہے۔ آپ نے صحیح تحریر
فرمایا کہ ان کی شخصیت اپنی مثال آپ ہے۔عاجزی، انکساری، سادگی، بھولاپن ان کی
دنیاوی عادات کا حصہ اور ان کی روحانی قوت کا سرچشمہ ہیں۔
ہاں ڈاکٹر حسن احمد نظامی صاحب نے رامپور میں اپنے دولت کدہ سے اردو کے طلبا و
طالبات کی کیا خوبامداد کی اور اب بھی کرتے جا رہے ہیں اس کا علم مجھے آپ کے
مضمون سے ہی ہوا۔ اللہ تعالی ان کیخدمات کو شرف قبولیت بخشیں اور انھیں دونوں
دنیاؤں میں اپنے انعامات سے نوازیں، آمین۔
آپ کے مضمون کو میں ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہا ہوں۔
والسلام سید ظفر محمود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم ڈاکٹر ظفر محمود صاحب
ممنون ہوں کہ آپ نے اس خاکسار کے مضمون کو محبت سے پڑھا۔
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔
والسلام
معصوم مرادآبادی